The author is a lecturer of philosophy whose philosophico-poetic temperament and traditionally religious, mystical sensibility inform meditative reflections on theology, literature, psychology, and cinema.
انسان، انسان کی وجودی ضرورت (existential necessity) ہے، اسکا انتخاب نہیں اور اس مطلق سچائی کی دلالت میں حجت اسکا اپنا باطن ہے کوئی کتاب نہیں۔ دورِ حاضر میں درپیش سنگین فکری، اخلاقی، سماجی، سیاسی، معاشی اور جمالیاتی مسائل کی ایک بہت بنیادی وجہ دراصل انسانوں کے مابین آپسی تعلقات کے آداب کو وجودی اہمیت نا دے سکنا بھی ہے۔ حسِ تعلق کا بحران انسان کی اندرونی اور بیرونی دنیا یعنی انفس و آفاق دونوں سطحوں پر انسان دشمن صورتحال (conditions for dehumanisation) پیدا کرنے والا سب سے اہم بحران ہے۔ انسان دراصل ایک ادھورا وجود ہے جسے مکمل تر اسکا وہ نظامِ تعلق کرتا ہے جو انسانوں کے مابین بنتا ہے۔ انسان کا ہر قریبی رشتہ اپنے سے منسلک ضروری اور مخصوص احساسات کی مدد سے انسان کو تھوڑا تھوڑا مکمل تر کرتا چلا جاتا ہے اور یہ ایک دو طرفہ عمل ہے۔ انسانوں کے اسی باہمی انحصار (inter-dependence) کی قدر کے شعور، احساس اور اسکے تحفظ سے ایک باہمی تعلقیت (inter-relationality) وجود میں آتی ہے۔ یہ تعلقیت اس ضروری عالمِ حیات (life-world) کو پروان چڑھاتی ہے جس سے فرد کی وجودیت (existentiality) تعمیر ہوتی ہے۔ حالاتِ زندگی کی ناگزیر تلخیوں کے باوجود حسنِ تعلق کی وجہ سے پیدا ہونے والی احساساتی فضا سے خود کو تعمیر کرنے والی اس وجودیت کا نتیجہ وجودی طمانیت (existential fulfilment) کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ طمانیت کی غیر موجودگی سے پیدا ہونے والے منفی جذبات وہ اسباب ہیں جن سے موجودہ دور میں نئے نئے فتنے جنم لے رہے ہیں جن میں سے بیشتر فتنے تو بدقسمتی سے انسانی ترقی کا معراج بھی متصور کیے جا رہے ہیں۔
زندگی کا اصلاً بامعنی یا بے معنی ہونا اگرچہ ایک فلسفیانہ سوال ہے اور شعور اسکا مخاطب ہے مگر دونوں صورتوں میں انسان کو اسکا گہرا اور پرتاثیر تجربہ احساساتی زبان میں ہوتا ہے، ادراک کی زبان میں نہیں کیونکہ انسان کی وجودیت کا مسکن دل ہے ذہن نہیں۔ ذہن اگر لاجواب بھی ہو جائے پر دل مطمئین ہو تو کسی قسم کا وجودی بحران انسان کو اپنی گرفت میں نہیں کر پاتا۔ چونکہ عام آدمی کے مسائل شعوری نہیں ہوا کرتے بلکہ اخلاقی نوعیت کے ہوتے ہیں، اس لیے وجودی یا اخلاقی طمانیت (moral fulfilment) وہ واحد ذریعہ ہے جس سے نفسیاتی ہیجانات وغیرہ کو کم کیا جا سکتا ہے اور زندگی کو عام انسان کے لیے قابلِ برداشت بنایا جا سکتا ہے نا کہ کسی فلسفیانہ موشگافیوں سے۔ مرزا عبدالقادر بیدل رح کا شعر ہے کہ:
عشرتى گر ہست دلہا را بہ ہم جوشيدن است
کہ شود يکدانہ اى انگور را تنہا شراب
[دلوں کے لیے اگر کوئی خوشی ہے، تو وہ مل بیٹھنے میں ہے؛ ایک تنہا انگور کیسے شراب بن سکتا ہے؟]
تمام انسانی رشتے اپنی ایک مخصوص اور جُداگانہ احساساتی بناوٹ رکھتے ہیں اور اپنے اپنے لحاظ سے اخلاقی طمانیت میں حصہ ڈالتے ہیں۔ یعنی وجود کو دنیا کے زندان میں گھر کا سا نفسیاتی ٹھہراؤ مہیا کرتے ہیں اور شخصیت کے خالی حصوں کو بھرتے ہیں۔ والدین سے تعلق کی نسبتیں سب سے پہلے شخصیت کو بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ مگر ایک رشتے سے ہونے والی شخصیت کی تعمیر دوسرے رشتوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، یعنی تمام رشتے کسی نا کسی لحاظ سے آپس میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ سب مل کر شخصیت کو اسکی تکمیل کے مراحل طے کرواتے ہیں۔ ادھوری شخصیت کبھی وجودی معنویت (existential meaningfulness) کے گہرے تجربے سے نہیں گزر پاتی، اسی لیے یہ تعلقات انسان کے وجود کی اندرونی ساخت کو نا صرف مکمل کرنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ زندگی کو بامعنی بنانے میں بھی معاون ہوتے ہیں۔ والدین سمیت تمام رشتوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، ایک رشتہ ایسا ہے جو سب سے زیادہ اہم بھی ہے، پیچیدہ بھی اور زندگی میں مثبت و منفی نتائج پیدا کر سکنے کی صلاحیت بھی سب سے زیادہ اسی میں ہے۔ اور یہ تعلق ہے مرد و زن کا تعلق۔ والدین سے بچوں کا تعلق، جذب کرنے کی صلاحیت سے ہوتا ہے یعنی منفعل تاثریت (passive receptivity) کا ہوتا ہے جس میں اختیاری عمل کوئی نہیں ہوتا۔ جبکہ مرد و زن کا سنجیدہ تعلق فعال تاثریت (active receptivity) کا ہوتا ہے۔ جس کے باعث اسکے اندر وہ شعوری صلاحیت بھی کارفرما ہوتی ہے جس کے ذریعے سے پہلے سے بنی ہوئی شخصیت کی شعوری طور پر تعمیرِ نو کرنے اور غیر شعوری حالت میں لگے داخلی زخموں کو مندمل کرنے کا موقع بھی میسر آ سکتا ہے بشرطیکہ دونوں احساسِ ذمہ داری کے ساتھ authentic relation قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اگرچہ مذہبی، اخلاقی، روایتی اور تہذیبی تناظر میں اس رشتے کی صرف ایک ہی صورت قابلِ قبول ہے جو کہ بلا شک و شبہ درست بھی ہے مگر جس دور میں انسان ہی خطرے میں ہو یعنی دائرہ تکلیف سے ہی یہ باہر جا رہا ہو تو وہاں مذہب کی بات پہلے کرنا مضحکہ خیز سا معلوم ہوتا ہے خاصکر اس وقت جب عوامی جمالیاتی ذوق کی سطح اپنی گراوٹ اور بدصورتی کی تقریباً انتہا پر ہو۔
مرد و زن دراصل انسانوں کے مزاجِ تعلق کے دو مختلف رحجانات کے نام ہیں، زندگی کو دیکھنے کے دو مختلف رویوں کی اصطلاح ہے۔ مرد و زن دو ایسے متضاد ہیں جو ایک دوسرے کے نقیض نہیں ہیں بلکہ آپسی کشش (inter-attraction) رکھتے ہیں، ہم آہنگ ہیں اور ایک دوسرے سے خود کی تکمیل کرتے ہیں۔ اگر یہ دو متضاد یکجان نا ہو پائیں تو دونوں کی شخصیت میں کِھلنے کا عمل آدھا رہ جاتا ہے یعنی psychic flowering کا عمل مکمل ہی نہیں ہو پاتا۔ جیسا کہ کارل یونگ نہ لکھا ہے کہ:
.The opposites are the ineradicable and indispensable preconditions of all psychic life
انسانوں کے باہمی انحصار سے بننے والی باہمی تعلقیت میں واحد مرد و زن کا تعلق ایسا تعلق ہے جس میں ضدین کی تضمین (complimentarity) سے شخصیتوں کی تکمیل ہوتی ہے یعنی کہ
completive relation via complementary inter-dependence of the opposites
جس کے نتیجے میں دونوں شخصیات کی مخفی اور دبی ہوئی صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔ انسانی وجود کی داخلی دنیا کے دو اصولی مگر متضاد قطبین کے درمیان یہ اتحاد (unity of opposites) ایک مربوط تعامل (harmonious interplay) ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر ایک اپنے اندر اپنی ضد کو شعوری طور پر بیدار کر کے اپنی شخصیت کو تمامیت (wholeness) کی طرف گامزن کرتا ہے یعنی کہ
awakening of the inner whole through the integration of the masculine and feminine principles into eachother
جس کے باعث شخصیت کے اندر تصادم کم ہو جاتا ہے جو کہ بہت سے نفسیاتی و اخلاقی مسائل اور زندگی میں جمود کی وجہ بنا ہوا ہوتا ہے۔ یہ سب گفتگو اس تعلق کے ممکنہ مثبت نتائج کا ایک مجرد بیان ہے۔ اس کے برعکس اگر آدابِ تعلق کا خیال نا رکھا جائے اور خودشناسی کے حوالے سے حد سے زیادہ غفلت برتی جائے تو سب سے زیادہ منفی تجربات بھی اسی مرد و زن کے تعلق کا خاصہ ہیں۔ اگرچہ بعض مثبت نتائج غیر شعوری حالت میں بھی حاصل ہو جایا کرتے ہیں۔
موجودہ دور اس وجودی تعلق کے فطری اظہار کے خلاف سرگرداں ہے۔ اس دور میں ایسا لگتا ہے جیسے
each and everything is conspiracing against this ontological relationality
جس کا واضح ثبوت disintegration of the family unit کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مرد و زن کا تعلق خاندان کے ادارے کا گویا nucleus ہے اور یہ ایک ایسا غیر خونی رشتہ ہے جس سے تمام خونی رشتے وجود میں آتے ہیں۔ خاندان وہ ذریعہ ہے جس سے یہ تعلق اپنی پوری استعداد و صلاحیت کے ساتھ کِھلنے کے عمل سے گزرتا ہے۔ اس کے بغیر یہ تعلق بہت زیادہ تحدید اور سکڑاؤ کا شکار ہو جاتا ہے اور نتیجتاً پھر یہ کچھ خاص مثبت نتائج پیدا نہیں کر پاتا، نا ہی فرد کے اندر اور نا ہی خوشحال معاشرت کی صورت میں۔ جیسے ایما یونگ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ:
In our time, when such threatening forces of cleavage are at work, splitting peoples, individuals and atoms, it is doubly necessary that those which unite and hold together should become effective; for life is founded on the harmonious interplay of masculine and feminine forces, within the individual human being as well as without
اجتماعی سطح پر خاندان سے ہٹ کر بھی یہ دور جزواً اس تعلق کے فطری اظہار میں رکاوٹ ہی ہے اور اسکا ثبوت رائج الوقت تصورِ محبت و عاشق و محبوب کے تجزیے سے کیا جا سکتا ہے۔ چاہے اپنے اردگرد معاشرے میں نظر دوڑا لی جائے یا سکرین پر اسکے مظاہر کو دیکھ لیا جائے، دونوں کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ انتہائی بدقسمتی سے اس میں پڑھے لکھے ہونے نا ہونے کی تفریق بھی نہیں ہے۔ حضرت احمد جاوید صاحب نے ایک بار فرمایا تھا کہ "جدید تعلیم یافتہ بچاروں کو تو سلیقے سے محبت نامہ ہی نہیں لکھنا آتا۔ جو محبت نامہ نہیں لکھ سکتا اسکی تعلیم تو کیا آدمیت بھی ناقابلِ اعتبار ہے۔" یہ سب اس لیے ہے کہ جدید انسان اجتماعی سطح پر انسانی تعلقات کے فطری احساسات سے لاتعلق ہوتا جا رہا ہے، اسکی وجوہات خیر کافی ساری ہیں جو اس وقت موضوع نہیں۔ البتّہ معاشرے میں نفسیاتی رحجان کس رشتے کو لے کر کیسا ہے اسکا اندازہ فن و ادب کی صورتوں میں اسکا کیسا اظہار مقبول ہے اس سے لگایا جا سکتا ہے۔ مرد و زن کے تعلق کی جیسی نسبتیں popular culture میں دیکھی، سنی اور پڑھی جا سکتی ہیں ان پر ہم جیسا فقط نوحہ ہی پڑھ سکتا ہے۔
بحرحال، ان دو متضاد قوتوں یعنی masculine and feminine principles میں فرق کی تفصیلات اور کیسے یہ ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں یہ ایک طویل اور پیچیدہ مضمون ہے جس کا فہم وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا اور بہتر ہوتا ہے۔ لیکن اصل مقدمہ اور وقت کی ضرورت انکی ایک دوسرے کے لیے وجودی اہمیت کو تسلیم کرنا ہے۔ اس existential inter-connectedness کی تفصیل کے متبادل کے طور پر یہ فلم بھی دیکھی جا سکتی ہے جس کا ہر ایک ایک فریم، کرداروں کی بےمثال کارکردگی اس پوری تحریر پر دلالت کر سکتی ہے جو اوپر لکھی گئی ہے۔ انسان کا چہرہ اور آنکھیں اسکے دل کے قاصد ہوتے ہیں، یہ قاصد وجود کے احساسات کی نمائندگی کرتا ہے ٹھیک ایسے ہی جیسے خوشبو گلاب کے احساسات کا اظہار کرتی ہے۔ چہروں کے تاثرات اور آنکھوں کی بدلتی روشنی کی مدد سے اس کے کرداروں کا وجودی و نفسیاتی تجزیہ اور بعد از خط و کتابت
(integration of masculine amd feminine principles)
ان کی شخصیت میں آنے والی مثبت مگر ادھوری تبدیلیوں کے بغور تجزیہ کو اس تحریر کی بیرونی دلیل سمجھا جا سکتا ہے، ورنہ اصل حجت تو ہر کسی کا اپنے خود کا اندرون ہی ہے۔ یقین نا آئے تو جب چاہو بند آنکھوں سے گردن جھکاؤ اور دل کے نقوش دیکھ لو۔
واللہ اعلم
Stills from Ritesh Batra's The Lunchbox (2013)